تعلیم وتدریس ایک معزز اور
قابل احترام منصب ہے، جس کے لیے کچھ شرائط اور آداب ہیں، جن کا جاننا
اور ان کی عملی مشق کرنا ایساہی ضروری ہے، جیسے
کسی فن کو سیکھنے کے لیے اس کی عملی مشق ضروری
ہوتی ہے۔ فنِ تدریس کے لیے ذوق، فطری صلاحیت
اوراس منصب کے تقاضوں کی ادائیگی کے لیے توجہ، محنت اور
مشقت کی ضرورت ہے؛ تاکہ اسے سیکھنے والا ایک معلمِ کامل بن کر
نکلے اور اس میں ایک کامیاب استاذ کی صفات اور خصائص
موجود ہوں۔ جس سے اس کے تجربہ میں مزید اضافہ ہوتا رہے۔نیز
جب وہ تدریس کے میدان میں قدم رکھے تو طلباء اس سے مستفید
ہوں۔ اور وہ خود بھی علمی اور روحانی لذت محسوس کرسکے۔
تعلیم وتدریس ایک مقدس منصب ہے جو سیدالانبیاء حضرت
محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی اعلیٰ صفات میں سے
ایک صفت اور فرائض نبوت میں سے ایک فریضہ ہے۔
ارشادِ باری ہے:
”لَقَد مَنَّ اللہُ عَلَی المُوْمِنِیْنَ اِذْبَعَثَ
فِیْھِمْ رَسُوْلاً مِّنْ اَنفُسِھِم یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ آیَاتِہ
وَیُزَکِّیْھِمْ وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتَابَ وَالحِکْمَةَ وَاِن
کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلَالٍ مّْبِیْنٍ (آل عمران:۱۶۴)
”اللہ نے احسان فرمایا ایمان
والوں پر جو بھیجا ان میں رسول انھیں میں سے پڑھتا ہے ان
پر آیتیں اس کی اور پاک کرتا ہے ان کو اور سکھاتا ہے ان کو کتاب
اور کام کی باتیں اور وہ تو پہلے سے صریح گمراہی میں
تھے۔“
نبی کریم صلی اللہ علیہ
وسلم کا اِرشاد ہے:
”اِنَّ
اللہَ لَمْ یَبْعَثْنِی مُعَنِّتًا وَلَا مُتَعَنِّتاً، وَلٰکِنْ
بَعَثَنِی مُعَلِّمًا مُیَسِّراً․“
(صحیح
مسلم،کتاب الطلاق،باب بیان تخییرالمرأة لایکون طلاقاً)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو
اللہ نے معلم بناکر بھیجا، آپ نے فرمایا:
انما بعثت
معلما․ ”مجھے معلم بناکر بھیجا گیا
ہے“۔
آپ پر سب سے پہلے جو وحی نازل ہوئی
اس میں علم اور تعلیم ہی کا ذکر تھا۔
”اِقْرَاْ
بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ(۱)خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ(۲)اِقْرَاْ
وَرَبُّکَ الْاَکْرَمُ(۳)الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ(۴)عَلَّمَ
الْاِنْسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْ(۵)“․(علق)
”اے پیغمبر! آپ اپنے اس رب کا نام
لے کر قرآن پڑھیے جس نے پیدا انسان کو خون کے لوتھڑے سے، آپ قرآن پڑھیے
اور آپ کا رب بڑا کریم ہے جس نے قلم کے ذریعہ تعلیم دی،
اس نے انسان کو ان چیزوں کی تعلیم دی جن کو وہ نہ جانتا
تھا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم میں
وہ تمام صفاتِ عالیہ موجود تھیں جو ایک معلم کامل میں
مطلوب ہیں، آپ کمالِ علم، خلقِ عظیم، اُسوہٴ حسنہ اور کمالِ
شفقت اور رحمت جیسی صفات کے ساتھ موصوف تھے۔
اسی بناپرجو عالم دین، قرآنِ
کریم یا کسی شرعی علم کی تدریس کا کام
سرانجام دے رہا ہے، وہ اِس صفت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ
وَسلم کی نیابت کررہا ہے،لہٰذا اسے یہ جاننا چاہیے
کہ وہ ایک سعادت مند انسان ہے اور اسے یہ سعادت مندی مبارک ہو۔
ان شرعی علوم میں سے ایک علم عربی لغت بھی ہے جو
قرآنِ کریم کی زبان،نبی کریم صلی اللہ علیہ
وسلم کی زبان اور شریعت اِسلامیہ کی زبان ہے۔ چوں
کہ تعلیم وتربیت کے ذریعہ استاذ کے اثرات شاگردوں پر پڑتے ہیں؛
اس لیے اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ
وسلم کو اُمت کے لیے معلم اور مربی بناکر بھیجا اور آپ صلی
اللہ علیہ وسلم کی تعلیم وتربیت خود اللہ تعالیٰ
نے فرمائی،جیساکہ قرآنِ کریم میں ارشادہے:
”وَعَلَّمَکَ
مَالَمْ تَکُنْ تَعْلَم“ (النساء :۱۱۳)
مزید فرمایا:
”وَاِنَّکَ
لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْم․“ (القلم:۴)
اس لیے آپ صلی اللہ علیہ
وَسلم ایک اعلیٰ اور کامل معلم تھے، ایسا باکمال معلم نہ
آپ سے پہلے کسی نے دیکھااور نہ آپ کے بعد کسی نے دیکھا۔
آپ صلی اللہ علیہ وَسلم کی اعلیٰ صفات میں
کمالِ علم،عظیم حکمت،اعلیٰ اخلاق، شاگردوں کے ساتھ شفقت ورحمت،
ان کی تعلیم و تربیت کے لیے نہایت عمدہ اور مفیداسالیب
کا استعمال اور ان کی خبرگیری جیسی صفات اپنے کمال
کی انتہاء کو پہنچے ہوئے تھے؛ اس لیے جو معلم اور استاذ آپ صلی
اللہ علیہ وسلم کا نائب بننا چاہے اور فنِ تدریس میں کمال تک
پہنچنے کا خواہش مند ہوتو اُسے چاہیے کہ پہلے نبی کریم صلی
اللہ علیہ وسلم کی صفات وکمالات جو اِس میدان سے متعلق ہیں،
معلوم کرے اور پھر اِن صفات میں آپ کے نقشِ قدم پر چلے۔جیساکہ
ارشادِباری ہے:
”لَقَدْکَانَ
لَکُمْ فِی رَسُوْلِ اللہِ أُسْوَةٌ حَسَنَة․“( الاحزاب :۲۱)
اب میں اختصار کے ساتھ چند ایسی
صفات کا ذکر کروں گا جو ایک کامیاب استاذ اور مدرّس کے لیے ضروری
ہیں اور ضمناً ان کی مثالوں کی طرف اشارہ کرتا جاوٴں گا؛
کیوں کہ میرے سامنے اِس وقت دورہٴ حدیث سے فارغ ہونے والے
فضلاء ہیں اور یہ مثالیں اُن کے ذہنوں میں ابھی
تروتازہ ہیں؛ اس لیے کہ وہ حال ہی میں احادیث پڑھ
کر فارغ ہوئے ہیں۔ وہ صفات درج ذیل ہیں:
۱- علم میں کمال:
معلم کامل کے لیے ضروری ہے کہ
وہ اپنے فن میں پوری مہارت رکھتا ہو، آپ صلی اللہ علیہ
وَسلم کے بارے میں اِرشادِ باری تعالیٰ ہے:
”اور سکھائیں آپ کو وہ باتیں
جو آپ نہ جانتے تھے اور اللہ کا فضل آپ پر بہت بڑا ہے۔“ (النساء)
کامیاب اُستاذ کی صفت یہ
ہے کہ وہ امکانی حد تک علم میں کمال رکھتا ہو، خصوصاً اُس مضمون اور
فن میں جس کے پڑھانے کی ذمہ داری اس پر ڈالی گئی
ہے؛ کیوں کہ استاذ کو جس مضمون میں جتنی مہارت اور دسترس ہوگی
اتنا ہی زیادہ وہ طلباء کو فائدہ پہنچا سکے گا۔ لہٰذا
متعلقہ مضمون میں کمال حاصل کرنے کے لیے استاذ کو چاہیے کہ وہ:
۱-
اس مضمون کی بنیادی کتابیں ہمیشہ اپنے زیرمطالعہ
رکھے۔
۲-
جو کتاب اُسے پڑھانی ہے اسے باربار دیکھے۔
۳-
دورانِ مطالعہ اگر کسی عبارت یا کسی مسئلہ کے سمجھنے میں
دِقت پیش آئے تو اپنے استاذ سے مراجعت کرے۔
۴-اگر
اپنا استاذ نہ ہوتو اُس مضمون کے کسی ماہر استاذ سے رجوع کرے، اس سے پوچھے،
اس کے ساتھ مذاکرہ کرے اور اس میں شرم محسوس نہ کرے؛ کیوں کہ علم حاصل
کرنے میں شرم نہیں۔
۲-فصاحت وبلاغت:
کامیاب معلم کی ایک خوبی
یہ ہے کہ وہ فصیح اللسان ہو اور جو مضمون پڑھائے طلباء کو ذہن نشین
کرادے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بلاشک افصح العرب تھے اور جامع
کلمات کے مالک تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وَسلم نے فرمایا
”مجھے جوامع الکلم کی صفت عطا کی گئی ہے“ یعنی آپ
کے الفاظِ مبارک کم اور ان کے معانی زیادہ ہوتے تھے۔ نیز
آپ ٹھہر ٹھہر کر گفتگو فرماتے جو بھی اسے سنتا اسے سمجھ لیتا اور بہ
وقت ضرورت ایک بات کو تین بار دہراتے۔ یہی وجہ ہے
کہ آپ کی ایک ایک بات آج امت کے پاس محفوظ ہے۔
اُمّ الموٴمنین عائشہ صدیقہ
رضی اللہ تعالیٰ عنہا نبی صلی اللہ علیہ وسلم
کی بحیثیت معلمِ کامل آپ کی صفات بیان کرتے ہوئے آپ
کے اندازِگفتگو کے بارہ میں فرماتی ہیں:
”کان رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لایسرد الکلام کسردکم، ولکن اذا تکلم
تکلم بکلامٍ فصل، یحفظہ من سمعہ․“ (الفقیہ والمتفقہ للخطیب:۲/۱۲۴)
ترجمہ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم تمہاری طرح جلدی جلدی گفتگو نہیں فرماتے تھے؛ لیکن
آپ جب گفتگو فرماتے تو ٹھہرٹھہر کر گفتگو فرماتے جو بھی اسے سنتا وہ اسے یاد
کرلیتا۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ نبی کریم
صلی اللہ علیہ وسلم کی گفتگو کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں
:
”انہ کان
اذا تکلّم بکلمة عادھا ثلاثا، حتی تفھم عنہ․“(بخاری:۱/۱۲۹)
ترجمہ :نبی کریم صلی
اللہ علیہ وسلم جب گفتگو فرماتے تو(بہ وقت ضرورت) اسے تین بار
دُھراتے؛ تاکہ سننے والے اسے اچھی طرح سمجھ جائیں۔
۱- لہٰذا ایک کامیاب
استاذ کے لیے فصیح وبلیغ ہونا ضروری ہے، جس زبان میں
وہ طلباء کو پڑھارہا ہے، اس زبان پر اسے دسترس ہونی چاہیے؛ تاکہ وہ
اپنے مافی الضمیر اور کتاب کے مضمون کو فصیح وبلیغ انداز
میں طلباء کے سامنے پیش کرسکے، جس سے ایک معمولی صلاحیت
رکھنے والا طالب علم بھی اسے سمجھ سکے۔
۲-دورانِ
تدریس وہ زبان اِستعمال کرے جو سامنے بیٹھنے والے طلباء کی ذہنی
سطح کے مطابق ہو، نہ ان کی سطح سے اتنی اونچی ہو کہ ان کی
سمجھ سے بالاتر ہو اور نہ اتنی نیچی کہ استاذ عوامی سطح
پر اتر آئے۔
۳-گفتگو میں ایک ربط
اور ترتیب ہو، ٹھہرٹھہر کر بولے، جلدی نہ کرے، تاکہ سننے والا اُستاذ
کے ہرہرجملہ کو سنے اور سمجھ جائے۔
۴- اگر مضمون ایسا ہوجس میں
جملوں کو دُھرانے اور بار بار کہنے کی ضرورت ہے، تو انہیں باربار
دُھرائے، خصوصاً جب عربی زبان کا مضمون ہو۔
۳-اسالیب اور اندازِ تعلیم:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی
ایک خوبی یہ بھی تھی کہ آپ تعلیم میں
مختلف طریقے اور اسلوب استعمال فرماتے تھے اور سامعین کا خیال
فرماتے اور ان کے عقلی معیار کے مطابق گفتگو فرماتے اور مختلف علمی
مضامین کے اعتبار سے اسلوب بدلتے رہتے۔
غرضیکہ آپ صلی اللہ علیہ
وسلم نے صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم کی تعلیم میں وہ
تمام اسالیب اختیار فرمائے جو مفید سے مفیدتر ہوسکتے ہیں
اور آج کے اس ترقی کے دور میں اس سے بہتر کوئی علمی ادارہ
نیا اسلوب نہیں پیش کرسکا۔
لہٰذا کامیاب استاذ کی
صفات میں سے ایک صفت یہ بھی ہے کہ وہ تدریس کے
مختلف اسالیب اور انداز سے واقف ہو اور یہ جانتا ہو کہ کس فن کو کس
طرح پڑھایا جاتاہے اور خصوصاً اس فن کو جسے وہ پڑھارہا ہے اور یہ بھی
جانتا ہو کہ مضمون بدلنے یا طلباء کی ذہنی سطح اور اِستعداد کے
مختلف ہونے سے اسلوب کس طرح بدلاجاتاہے۔ یہ مستقل موضوع ہے جس پرایک
مستقل رسالہ لکھاجاسکتا ہے؛ یہاں اختصار کے ساتھ چند اسالیب کا ذکر کیا
جاتا ہے:
الف۔ نصوص اور عبارات کا یاد
کرانا:
بعض مضامین ایسے ہوتے ہیں جن کی نصوص اور عبارات کا یاد
کرنااور ان کے الفاظ کی حفاظت کرنا ضروری ہوتا ہے ، جیسے قرآنِ
کریم کی آیات اور ماثور دعائیں۔ اس سلسلہ میں
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کا انداز یہ تھا کہ
آپ منبر پر بیٹھ کر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے سامنے قرآنِ کریم
یا ماثور دعاوٴں کا ایک ایک جملہ پڑھ کر سناتے اور صحابہٴ
کرام رضی اللہ عنہم اسے سن کر دُہراتے اور اُسے یاد کرتے۔ حضرت
عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ:
”کان رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یعلّم الناس التشھد علی المنبرکمایعلّم
المکتب الصبیان‘ ‘․ (الفقیہ والمتفقہ للخطیب:۲/۱۲۴)
ترجمہ :”رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم منبر پر بیٹھ کر لوگوں کو تشہد اس طرح سکھاتے تھے، جیسے استاذ
مکتب والے بچوں کو سبق یاد کراتا ہے۔“
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ
سے روایت ہے کہ:
”کان رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یُعلِّمنا الاستخارة فی
الامرکماکان یعلمنا السورة من القرآن“․ (جامع مسانید الامام الاعظم
للخوارزمی: ۱/۳۸۵)
یعنی رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم ہمیں دعاء ِ استخارہ اس طرح سکھاتے تھے جس طرح آپ ہمیں
قرآن کی سورة سکھاتے تھے۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما
سے روایت ہے کہ:
”ان النبی
صلی اللہ علیہ وسلم کان یعلّمھم الدعاء کما یعلّمھم
السورة من القرآن، یقول:قولوا: اللھم انی اعوذبک من عذاب جھنم،
واعوذبک من عذاب القبر، واعوذبک من فتنة المسیح الدجّال، واعوذبک من فتنة
المحیا والممات․“ (مسنداحمدبن حنبل:۴/۲۷)
یعنی نبی کریم صلی
اللہ علیہ وسلم صحابہٴ کرام علیہم الرضوان کو دعا اس طرح سکھاتے
تھے جس طرح ان کو قرآن کریم کی سورة سکھاتے تھے۔آپ صلی
اللہ علیہ وسلم صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم کوفرماتے: کہو: اے
اللہ! میں جہنم کے عذاب سے آپ کی پناہ چاہتا ہوں، میں قبر کے
عذاب سے آپ کی پناہ چاہتا ہوں، مسیح دجال کے فتنہ سے آپ کی پناہ
چاہتا ہوں، زندگی اور موت کے فتنہ سے آپ کی پناہ چاہتا ہوں۔
تعلیمی میدان میں
جن مضامین کی عبارات اور نصوص کا یاد کرنا ضروری ہوتا ہے،
اس کے لیے یہی اسلوب زیادہ مناسب او رمفید ہے، جیسے
آج بھی اسکولوں میں پہاڑے اور گنتی یاد کرائی جاتی
ہے۔
ب۔ تعلیم بذریعہ سوال
وجواب:
تعلیم کا ایک اسلوب یہ بھی ہے کہ استاذ ایک طالب
علم کو سب طلباء کے سامنے کھڑاکرے اور اس سے سوال کرے اور وہ طالب علم سب طلباء کے
سامنے اس کا جواب دے ،یا استاذدوطالب علموں کو کھڑا کرے جن میں سے ایک
دوسرے سے سوال کرے اور دوسرا اسے جواب دے۔ اس اندازِ تعلیم میں
طلباء کو تعلیم پر توجہ زیادہ رہتی ہے اور اس سے ان کے دلوں میں
تعلیم کا شوق اورولولہ پیدا ہوتا ہے جس کے نتیجہ میں
طلباء اپنی آنکھ، کان اور فکر کے ساتھ متکلم کی طرف ہمہ تن متوجہ
ہوجاتے ہیں، جس سے وہ علمی مضمون دل میں اچھی طرح بیٹھ
جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دین کے کسی
اہم مسئلہ کی تعلیم کے وقت عموماً یہ انداز اختیار فرماتے
تھے، جیسے عقائد اور مغیبات وغیرہ کی تعلیم کے وقت۔
جس کی مثال جبریل علیہ السلام کی وہ مشہور حدیث ہے
جس میں ایمان،اسلام،احسان اور علاماتِ قیامت کا ذکرکیاگیاہے۔
روایت میں ہے کہ ایک نوجوان ایک طالب علم کی صورت میں
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں حاضر ہوا،
صحابہ رضی اللہ عنہم بیٹھے تھے، وہ نوجوان باادب حضور صلی اللہ
علیہ وسلم کے متصل سامنے بیٹھ گیا، اس نے آپ صلی اللہ علیہ
وَسلم سے دین کے بارے میں چند سوالات کیے ، آپ صلی اللہ
علیہ وَسلم نے ان کے جوابات دیے، صحابہ رضی اللہ عنہم یہ
سارا منظر دیکھ او رسن رہے تھے او راس سے مستفید ہورہے تھے، اس کے
سوالات یہ تھے:
سوال:آپ مجھے بتائیں کہ اسلام کیا
ہے؟
جواب:آپ صلی اللہ علیہ وسلم
نے اِرشاد فرمایا: اسلام یہ ہے کہ تم اس بات کی گواہی دو
کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمدصلی اللہ علیہ
وَسلم اللہ کے رسول ہیں اور تو نماز قائم کرے اور زکوٰة ادا کرے اور
رمضان کے روزے رکھے اور بیت اللہ کا حج کرے، اگر تو وہاں جانے کی
استطاعت رکھتا ہے۔
سوال:آپ مجھے ایمان کے بارے میں
بتائیں کہ ایمان کیا ہے؟
جواب: آپ صلی اللہ علیہ وسلم
نے ارشاد فرمایا:ایمان یہ ہے کہ تم ایمان لاوٴ اللہ
پر، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر، اس کے رسولوں پر، قیامت کے دن
پر اور تم ایمان لاوٴ اچھی اور بُری تقدیرپر۔
سوال: آپ مجھے احسان کے بارے میں
بتائیں کہ احسان کیا ہے؟
جواب: آپ صلی اللہ علیہ وَسلم
نے ارشاد فرمایا: احسان یہ ہے کہ تم اللہ کی عبادت اس طرح
بجالاوٴ کہ گویا تم اسے دیکھ رہے ہو، اگر تم اسے دیکھ نہیں
سکتے تو یہ خیال کرلوکہ وہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔
سوال:قیامت کب آئے گی؟
جواب:حضورصلی اللہ علیہ وَسلم
نے فرمایا:جس سے تم پوچھ رہے ہو ،وہ سائل سے زیادہ اس بارے میں
نہیں جانتا۔
سوال:آپ مجھے قیامت کی علامات
بتائیں؟
جواب: آپ صلی اللہ علیہ وَسلم
نے فرمایا:قیامت کی علامات میں سے یہ ہے کہ باندی
اپنی مالکہ کو جنے گی اور تم ایسے لوگوں کودیکھوگے جو
ننگے پاوٴں، ننگے بدن، غریب اور بکریاں چرانے والے ایک
دوسرے سے بڑھ چڑھ کر لمبی لمبی عمارتیں بنانے لگیں گے۔
یہ آنے والا طالب علم آپ سے سوال
وجواب کے بعد مجلس سے اُٹھ کر چلاگیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم
نے حضرت عمررضی اللہ عنہ سے پوچھا: جانتے ہو، یہ کون ہے؟ اُنہوں نے
عرض کیا: اللہ ورسولہ اعلم اللہ اور اس کے رسول زیادہ
جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:یہ
جبریل(علیہ السلام) ہیں، وہ اِس لیے آئے تھے؛ تاکہ تمہیں
تمہارا دین سکھائیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ
وسلم کے اس فرمان میں غور کریں:
اِنَّہُ
جِبْرِیل اَتَاکُمْ یُعَلِّمُکُمْ دِیْنَکُمْ․
کہ حضرت جبریل علیہ السلام نے
صحابہ کو دین سکھانے کے لیے ”سوال وجواب“ کا انداز اختیار کیا!
جس سے معلوم ہوا کہ سیکھنے سکھانے کا یہ اسلوب اور انداز بہت ہی
قابلِ عمل اور مفید ہے۔
ج۔تعلیم بذریعہ عمل: اسلام کی زیادہ تر تعلیمات
عمل سے تعلق رکھتی ہیں؛ اس لیے نبی کریم صلی
اللہ علیہ وسلم ان تعلیمات کو عملاً صحابہٴ کرام رضی اللہ
عنہم کے سامنے پیش فرماتے تھے اورصحابہٴ کرام آپ کو عمل کرتے
ہوئے دیکھ کر آپ کی اتباع کرتے تھے؛ چناں چہ جب نماز فرض ہوئی
اور اَقِیمْواالصَّلَاةَکاحکم نازل ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ
وسلم نے عملاً صحابہ کے سامنے نماز ادا کی اور فرمایا: صَلُّوْا
کَمَارَأَیْتُمُوْ نِی اُصَلِّیْ۔ تم اِسی طرح نماز ادا کرو،
جس طرح تم مجھے نماز ادا کرتے ہوئے دیکھتے ہو۔ اسی طرح جب حج کی
فرضیت ا س آیت مبارکہ:
”وَلِلہِ عَلَی
النَّاسِ حِجُّ البَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْہِ سَبِیْلاً․“(آل عمران :۹۷)
کے ذریعہ نازل ہوئی تو آپ صلی
اللہ علیہ وسلم نے اونٹنی پر بیٹھ کر مناسک حج ادا کیے؛
تاکہ ہر شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر ویسا ہی
عمل کرے جیسے آپ عمل فرمارہے ہیں، اور آپ نے اعلان فرمایا:”خُذُوْا
عَنِّیْ مَنَاسِکَکُمْ․“یعنی اپنی عبادت کے طریقے
مجھ سے سیکھ لو۔ احادیث میں اس طرح کی بہت سی
مثالیں ہیں اورعملی احکام کو سکھانے کے لیے یہی
کامیاب طریقہ ہے اور جدید علمی اداروں میں عملی
مضامین میں یہی اسلوب اِختیارکیاجاتاہے۔
یہی وجہ ہے کہ فقہاء کرام اور علماء اُصول کے ہاں تواتر عملی ایک
اہم شرعی دلیل شمار کی جاتی ہے۔
د۔ تعلیم بواسطہ قول وعمل: اس کی صورت یہ ہے کہ متعلقہ
مضمون کی عبارت اور نصوص کے معانی اور مطالب کو پہلے اس طرح بیان
کردیا جائے کہ سب طلباء اس کو اچھی طرح سمجھ جائیں، اگر اُس کا
تعلق عمل سے بھی ہو توپھر استاذ ان کے سامنے اسے عملاً پیش کرے۔
اس اندازِ تعلیم سے طلباء کے لیے علم اور عمل دونوں کا سیکھنا
بہت ہی آسان ہوجاتاہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ
عنہ فرماتے ہیں کہ:
”ہم جب نبی کریم صلی
اللہ علیہ وسلم سے دس آیات سیکھ لیتے تو اس وقت تک بعد
والی دس آیات نہ سیکھتے؛ جب تک ان دس آیات پر عمل کرنا نہ
سیکھ لیتے۔“ (المستدرک للحاکم: ۱/۵۵۷)
ر۔تعلیم بذریعہ اقرار و
ارشاد: آپ
صلی اللہ علیہ وسلم اگر کسی مسلمان کو کوئی کام کرتا دیکھتے
اگر وہ صحیح ہوتا تو اسے برقرار رکھتے اور اگر صحیح نہ ہوتا تو صحیح
بات کی طرف اس کی راہنمائی فرماتے جیسے حضرت عمرو بن
العاص رضی اللہ عنہ نے سفر کی حالت میں سخت سرد رات میں
گرم پانی نہ ملنے کی وجہ سے غسل جنابت کے بجائے تیمم کرلیا
اور نماز پڑھی اور آپ نے ان کو اس پر برقرار رکھا۔
س۔تعلیم بذریعہ مشورہ
اور مناقشہ علمی: آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضی
اللہ عنہم کی تعلیم و تربیت اس طرح بھی فرماتے تھے کہ
مسلمانوں کو کسی در پیش مسئلہ میں جس میں ابھی تک
کوئی حکم بذریعہ وحی نازل نہ ہوتا صحابہ کے سامنے حل کے لیے
پیش فرماتے، قرآنِ کریم نے بھی آپ کو اس کا حکم دیا تھا
”آپ ان سے مشورہ کرتے رہیے۔“ اس معاملہ میں صحابہٴ کرام اپنی اپنی رائے کا اظہار فرماتے اور آپ آخر میں
جو صحیح رائے ہوتی اس کی تائید فرماتے یا صحیح
رائے کی طرف راہنمائی فرماتے۔ اس طرح آپ نے صحابہٴ کرام کو عملی تربیت اس بات کی دے دی کہ آئندہ
امت کو درپیش مسائل کا حل اس طرح نکالیں۔ اسی کو قرآنِ کریم
نے ایک اصول اور قاعدہ کے طور پر یوں بیان فرمادیا ہے
”اور ان کے معاملات آپس میں مشورے سے طے ہوتے ہیں“۔ مدینہ
منورہ میں ہجرت کے بعد مسلمانوں کو ایک مسئلہ یہ درپیش
ہوا کہ نماز کے وقت مسلمانوں کو مسجد میں کس طرح بلایا جائے، آپ نے
صحابہ کی مجلس میں یہ معاملہ پیش فرمایا،
غور و فکر شروع ہوا کسی نے گھنٹی بجانے کا مشورہ دیا، بعض نے
ناقوس بجانے کا اور بعض نے آگ وغیرہ جلانے کا؛ لیکن آپ نے یہ
کہہ کر ان آراء کو مسترد کردیا کہ یہ غیر مسلموں کے شعار ہیں،
آخر میں جب حضرت عبد اللہ بن زید اور دوسرے صحابہ نے خواب میں موجودہ اذان سنی تو آپ نے اسے برقرار
رکھا اور فرمایا کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے اور حق ہے۔
۴-تعلیم میں نقشہ اور تختہٴ سیاہ کا اِستعمال:
بعض مضامین ایسے ہوتے ہیں
جن کو سمجھانے کے لیے تختہٴ سیاہ اور نقشہ کی ضرورت پڑتی
ہے، جس کے ذریعہ بعض حقائق کا طلباء کو سکھانا آسان ہوجاتاہے۔ نبی
کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض معنوی حقائق کو سمجھانے
کے لیے یہ انداز بھی اختیار فرمایا ہے۔ جیسا
کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں
کہ ایک روز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک
مربع خط کھینچا۔ پھر اس مربع خط کے درمیان میں ایک
خط کھینچا پھر اس درمیانے خط کے دونوں جانب چھوٹے چھوٹے خط کھینچے
اور ایک خط مربع خط کے باہر کھینچا۔ پھر صحابہٴ کرام
رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سے فرمایا: جانتے
ہو یہ کیا ہے؟ سب نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کے رسول زیادہ
جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ
درمیانہ خط انسان کی مثال ہے اور اس کے دائیں بائیں چھوٹے
چھوٹے خطوط وہ عوارض ہیں جو اُسے زندگی میں پیش آتے ہیں،
اگر ایک سے چھوٹ گیا تو دوسرا پکڑلیتا ہے اور جو مربع خط ہے یہ
اس کی اجل ہے اور اس کے ساتھ جو خط باہر جارہا ہے ، وہ اس کی اُمیدیں
اور آرزوئیں ہیں۔ (مسندامام احمد:۵/۲۳۷)
۵-تعلیم بذریعہٴ ضرب المثل:
کسی معنوی اورغیرمحسوس
حقیقت کو سمجھانے کے لیے اچھا طریقہ یہ ہے کہ اُستاذ
طلباء کے سامنے اس کی ایک حسی مثال پیش کرے اور پھر اس
معنوی حقیقت کو اس پر قیاس کرکے طلباء کے اذھان کے قریب
کردے۔ کتب حدیث میں اس کی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔
یہاں اُن میں سے ایک مثال ذکر کی جاتی ہے، جس میں
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اچھے اور بُرے ہم نشین
اور ساتھی کے اثرات کو بیان فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا:
”اچھے ہم نشین اور بُرے ہم نشین
کی مثال ایسی ہے، جیسے مُشک بیچنے والا اور بھٹیارہ۔
پس مشک بیچنے والا یا تو تمہیں مشک پیش کرے گا یا
تم خود اس سے مُشک خرید لوگے، یا (کم ازکم) اس کے پاس سے خوش بو آتی
رہے گی۔ اور بھٹیارہ یا تو تمہارے کپڑے جلادے گا۔ یا
(کم از کم) اس سے بدبو تمہیں پہنچے گی۔“ (متفق علیہ)
۶-سوال کے ذریعہ اذھان کو مشغول کرنا:
تعلیم کا ایک انداز یہ
بھی ہے کہ استاذ پڑھاتے وقت طلباء کے سامنے ایک یا ایک سے
زائد سوال پیش کرکے سب کے اذھان کو مشغول کردے؛ تاکہ وہ جواب سوچیں،
پھر ان سے جواب سنے۔اگر جواب صحیح ہے تو ان کی تصویب کرے۔ورنہ
صحیح جواب کی طرف ان کی راہنمائی کرے۔ نبی کریم
صلی اللہ علیہ وَسلم صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم کی
تعلیم میں یہ اسلوب بھی اختیار فرماتے تھے، خصوصاً
جب کسی کا امتحان لینا مقصودہو۔ نیز اس انداز سے طلباء میں
سوچنے اور حقائق میں غوروفکر کرنے کی عادت پڑتی ہے۔ نبی
کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذبن جبل رضی اللہ
تعالیٰ عنہ کو جب یمن کا گورنراور قاضی بناکر بھیجنا
چاہا تو آپ صلی اللہ علیہ وَسلم نے اُن سے سوال کیا کہ لوگوں کے
مقدمات کا فیصلہ کیسے کروگے؟ اس پر حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے
تفصیلی جواب دیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا
جواب سن کر ان کی تصویب فرمائی اور اس پر اللہ کا شکرادا کیا۔
تعلیم و تدریس کے ان اسالیب کے علاوہ اور بھی مختلف انداز
ہیں جن کا تعلق تعلیم کے اَعلیٰ مراحل سے ہے؛ اس لیے
اُن کو یہاں ذکرنہیں کیاگیا، لہٰذا عربی کے
اساتذہٴ کرام کو چاہیے کہ مذکورہ بالااسالیب میں سے جو
اسلوب بھی مناسب سمجھیں اسے موقع و محل اور مخاطب کے اعتبار سے
استعمال میں لائیں۔
۷-درس کی تیاری:
عربی پڑھانے والے اساتذئہ کرام اگر
چاہتے ہیں کہ وہ کامیاب مدرس بنیں اور طلباء ان سے خوب فائدہ
اٹھائیں، تو انھیں چاہیے کہ ہر سبق پڑھانے سے پہلے اسے خوب دیکھیں
اور اچھی طرح اس کا مطالعہ کریں، اگر کسی عبارت یا لفظ میں
طباعت کی غلطی دیکھیں تو اسے درست کردیں اور پڑھاتے
وقت طلباء سے بھی وہ غلطی درست کرالیں۔ نیزسبق
پڑھانے سے پہلے سبق کامکمل نقشہ ذہن میں بنالیں کہ آپ اسے کس طرح طلباء
کو پڑھائیں گے۔
تنبیہ:
یاد رہے کہ کتابوں میں کبھی
کاتب کی غلطی سے (جو عموماً غیرعلماء ہوتے ہیں)یا
حروف جوڑتے وقت یا ٹائپ کرتے وقت بعض آیاتِ کریمہ، اسی
طرح احاد یث شریفہ یا کسی عبارت میں طباعت کی
غلطیاں رہ جاتی ہیں، لہٰذا ایسی ا غلاط
کوبجائے اس کے کہ مصنف کی طرف منسوب کرکے اسے تحریف کا مرتکب قرار دیا
جائے، جو کہ ایک موٴمن کی دیانت کے خلاف ہے؛ بلکہ اُسے
دُرست کرلینا چاہیے۔ خصوصاً جب کہ وہ عالم ثقہ، بااعتماد اور
اہلِ علم میں مسلمہ شخصیت بھی ہو۔
ترغیب:
طلباء کے دلوں میں ترغیب کے
ذریعہ علم اور اُس مضمون کا شوق پیدا کرنا ایک کامیاب
استاذ کی صفات میں سے ہے؛ تاکہ طلباء کے ذہنوں میں اس علم
اورمضمون کی اہمیت پیدا ہو، اور وہ اس علم کوشوق ورغبت سے حاصل
کریں۔ اس کے لیے استاذ کو کتبِ حدیث میں ”کتاب
العلم“ کا مطالعہ کرکے اس میں سے چندمطلوبہ احادیث کا اِنتخاب کرنا
چاہیے۔
طلباء کے ساتھ شفقت ورحمت:
ایک معلم کے لیے ضرورہی
ہے کہ وہ اپنے شاگردوں کے ساتھ نہایت مشفق اور ہمدرد ہو، حضور صلی
اللہ علیہ وَسلم میں یہ صفت بدرجہ اتم موجود تھی، آپ معلم
ہونے کے ساتھ ایک والد کی طرح مشفق اور مہربان بھی تھے، آپ کی
زبان نہایت پاکیزہ تھی، آپ نے کبھی گالی گلوچ سے
کام نہیں لیا، ایک صحابی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں
”میں نے آپ سے بہتر نہ آپ سے پہلے کوئی معلم دیکھا نہ آپ کے
بعد، خدا کی قسم نہ آپ نے مجھے ڈانٹا، نہ مجھے مارا اور نہ مجھے برا بھلا
کہا۔“
ایک
کامیاب معلم کی خوبی یہ ہے کہ وہ نہایت بلند اخلاق
کا مالک ہو۔
نیز ایک معلم کا کمال یہ
ہے تعلیم کے ساتھ شاگردوں کی صحیح تربیت بھی کرے
اور خود اپنی ذات کو بطورِ عملی نمونہ پیش کرے، آپ کے بارے میں
قرآن کا ارشاد ہے:
”آپ ان کی تربیت اور تزکیہ
فرماتے ہیں“۔
اور قرآن نے آپ کی زندگی کو
پوری امت کے لیے بطورِ اُسوہٴ حسنہ پیش کیا۔
لہٰذا اُستاذ کو طلباء پر نہایت
شفیق اور ان کے ساتھ نرمی اور رحم کا سلوک کرنا چاہیے، اُستاذ
طلباء کو اپنی اولاد کی طرح عزیز سمجھے، ان کی تعلیم
پر خصوصی توجہ دے۔ ان کی تربیت، علم، اخلاق اور اَچھی
عادات اپنانے میں ان پراس طرح محنت کرے جس طرح اپنی اولاد کے لیے
کرتا ہے۔
طلباء کی نگرانی:
اُستاذ کے فرائض منصبی میں یہ
بھی داخل ہے کہ درس گاہ اور درس گاہ سے باہر حتی الامکان طلباء پر
نگاہ رکھے اور دیکھے کہ وہ علم میں آگے بڑھ رہے ہیں یا نہیں؟خصوصاً
اس مضمون میں جس کو وہ استاذ انھیں پڑھارہا ہے اور دیکھے کہ کیا
وہ درس گاہ میں سبق کے دوران توجہ سے بیٹھتے ہیں؟ کیا وہ
محنت کرتے ہیں؟ تکرار اور مطالعہ کرتے ہیں؟ اسباق میں پابندی
سے حاضر ہوتے ہیں یانہیں؟ وغیرہ نیز جہاں تک ممکن
ہو ان کی اخلاقی حالت کا بھی خیال رکھے، وقتاً فوقتاً ان
کے حالات معلوم کرتا رہے کہ وہ درس گاہ سے باہر کیسے رہتے ہیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وَسلم اپنے صحابہ رضی اللہ
عنہم کی خبرگیری فرماتے تھے، اگر کسی کو نہ دیکھ
پاتے توپوچھتے کہ فلاں کیوں نہیں آئے؟ اگر معلوم ہوا کہ وہ بیمار
ہیں تو آپ ان کی بیمارپُرسی کے لیے تشریف لے
جاتے۔
عربی زبان کی قدرومنزلت:
ایک طالب علم میں بنیادی
طور پر علم کا شوق اور اس کے حصول کا جذبہ ہونا چاہیے؛ تاکہ وہ علم کو اپنا
مقصد بناکر اسے حاصل کرنے کے لیے پوری پوری محنت کرے۔
طالبِ علم میں علم کا شوق اوراس کی محبت کبھی فطری ہوتی
ہے، افراد کے اعتبار سے اس میں قلت و کثرت کااعتباراگرچہ رہتاہے اور بعض میں
یہ شوق بہت ہی کم ہوتا ہے۔ دونوں صورتوں میں اسے پیدا
کرنے اور اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اس میں استاذ کے
عمل اور کردار کو بڑادخل ہے۔ ایک عقل مند اور تجربہ کار استاذ ہی
طلباء میں یہ شوق و ذوق پیدا کرسکتا ہے اور اسے مزید آگے
بڑھاسکتا ہے۔ اس کا اچھا اور آسان طریقہ یہ ہے کہ استاذ تعلیم
شروع کرنے سے پہلے اور تعلیم کے دوران وقتاً فوقتاً طلباء کے سامنے علم اور
علماء کے فضائل، ان کامرتبہ ومقام ،خصوصاً عربی زبان کی فضیلت
اور اس کی اہمیت بیان کرتا رہے اورطلباء کو بتائے کہ عربی
زبان کی قدرومنزلت دینی، اجتماعی اور سیاسی
ہراعتبار سے بہت اونچی ہے۔ عربی زبان قرآنِ کریم اور وحی
کی زبان ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی
زبان ہے جو سب سے زیادہ فصیح وبلیغ اور جَوَامِعُ الکَلِم کے
حامل تھے، لہٰذا شرعی احکام کو اس کے صاف ستھرے مصادر سے براہِ راست
حاصل کرنے اور اسلامی ثقافت کو اسلام کی علمی تُراث سے حاصل
کرنے کے لیے عربی زبان پر دسترس ضروری ہے، خصوصاً اسلام کے
دَورسے پہلے کی عربی زبان جس میں یہ قرآن نازل ہوا، اس سے
قرآن کے سمجھنے میں مدد ملتی ہے؛ کیوں کہ یہی لوگ
اس کے پہلے مخاطب تھے؛ اس لیے ایک مسلمان طالب علم کے سامنے عربی
سیکھنے کا یہی اعلیٰ مقصد ہونا چاہیے۔
جہاں تک عربی زبان کی اجتماعی اور سیاسی اعتبار سے
اہمیت ہے، تو یہ عرب، اِسلامی ممالک اور اُمت اِسلامیہ کے
مختلف افراد کے درمیان ایمان کے بعد مضبوط ترین رابطہ ہے۔
چناں چہ جب عربی جاننے والے دومسلمان ایک مشرق اور دوسرا مغرب کا رہنے
والا باہم ملتے ہیں، تو ان کے لیے آپس میں افہام وتفہیم
بہت آسان ہوجاتی ہے۔ ہر ایک دوسرے کے سامنے اپنے دلی
جذبات اور محبت کا اِظہار کرسکتا ہے ، ایک دوسرے کے حالات اور مسائل سے
براہِ راست مطلع ہوسکتا ہے؛ جب کہ بسااوقات عالمی اجنبی خبر رساں ایجنسیاں
مسلمانوں کے حالات کو مسخ کرکے پیش کرتی ہیں جو ان کے لیے
مزید پریشانی کا سبب بنتی ہیں۔ اگر عربی
سیکھنے والوں میں ایسے طلباء بھی ہوں جو علم کے بجائے
زبان کو بحیثیت زبان سیکھنا چاہتے ہیں تو ان کو بھی
شوق دلایاجائے کہ اگروہ کسی عرب ملک میں ملازمت یا سیاحت
کے لیے جائیں گے تو وہ عربی زبان جاننے کی بنا پر اپنے
مقصد میں زیادہ کامیاب رہیں گے۔ اب یہ ایک
اچھے تجربہ کار استاذ کا کام ہے کہ عربی کی تعلیم کے دوران ایسے
طلباء کی روحانی اور فکری تربیت کرے اور ان کو دین
اور دینی اعمال کی طرف دعوت دے۔ اگر عربی کا استاذ
کسی مسجد میں امام اور خطیب ہے تو اسے چاہیے کہ اپنے مقتدیوں
کو عربی زبان سیکھنے کی ترغیب دے، ان کے لیے مسجد یا
مسجد سے متصل کسی ہال میں ان کے پڑھانے کا انتظام کرے۔ روزانہ یا
ہفتہ میں تین دن ان کو پڑھائے اور ان کی ذہنی اور دینی
تربیت کرے۔ اگر عربی کا استاذ کسی غیرمسلم ملک میں
ہے اور وہاں مسلمان اقلیت میں ہیں اور عربی پڑھنے کا شوق
رکھتے ہیں تو اسے چاہیے کہ ان کے لیے بھی عربی
پڑھانے کا انتظام کرے۔ اور دورانِ تعلیم ان کے سامنے نہایت حکمت
کے ساتھ اسلام کے محاسن اور اس کی عمدہ اور آسان تعلیمات کا تذکرہ
کرتا رہے، شاید یہی بات ان کے لیے ہدایت کا سبب بن
جائے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ فرمان پیش
نظر رہے، جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضر ت علی رضی
اللہ عنہ کو فرمایا تھا کہ: اگر اللہ تعالیٰ تمہاری وجہ
سے کسی ایک شخص کو بھی ہدایت نصیب کردے تو یہ
تمہارے لیے سرخ اونٹوں سے بہتر ہے۔ نیز مقتدیوں کو عربی
پڑھانے کا ایک فائدہ یہ بھی ہوگا کہ وہ عربی سیکھنے
کے بعد جمعہ کا خطبہ او رنماز میں پڑھی جانے والی سورتیں
اور مختلف اوراد کسی درجہ میں سمجھنے لگیں گے۔ اس طرح
امام اور مقتدیوں میں بحیثیت استاذو شاگرد مزید ایک
قلبی اور روحانی تعلق بڑھ جائے گا اور ایسے مسائل بھی
رونما نہیں ہوں گے جو عموماً امام اور مقتدیوں کے درمیان بُعد کی
وجہ سے پیدا ہوتے ہیں۔
آخری بات:
آخر میں اپنی ان معروضات کی
روشنی میں اپنی تعلیمی برادری کی خدمت
میں چند گزارشات پیش کرتا ہوں۔
ہمیں یہ بات نہیں بھولنی
چاہیے کہ ایک معلم اور استاد کا اسلام میں کیا مقام ہے،
معلّمین حضرات حقیقت میں انبیاء کرام علیہم السلام
کے وارث ہیں: العلماء ورثة الانبیاء اور مرتبہ عظیم کے ساتھ عظیم
تر ذمہ داریاں بھی انھیں پر عائد ہوتی ہیں۔
اس لیے ہم صدقِ دِل سے یہ عہد
کریں کہ ہم اپنے اندر وہ تمام صفات پیدا کریں گے جو ایک
معلم کامل میں مطلوب ہیں اور اپنے سامنے ہمیشہ معلم کامل صلی
اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ کو بطورِ معیار کے
رکھیں گے۔
ہم ان اوصاف کو اپناتے ہوئے اپنی
علمی درس گاہوں کا معیار بلندکریں، ہمارے مدارس، ہمارے اسلامی
اسکولز، ہماری اسلامی یونی ورسٹیاں، ہمارے علمی
ادارے اپنے تعلیمی معیار میں تربیتی اعتبار
سے، نظام کے اعتبار سے، اخلاق کے اعتبار سے، وقار کے اعتبار سے، صفائی کے
اعتبار سے ، نظامت کے اعتبارسے اتنے بلندہوں کہ طلباء ان کی طرف کھنچے ہوئے
آئیں اور کسی دوسری طرف اپنا رُخ نہ کریں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ
وَسلم کی سیرت سے ہمیں یہی سبق ملتا ہے آپ صلی
اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے ” اللہ تعالیٰ کویہ بات پسند
ہے کہ جب تم کوئی کام کرو تو اسے خوش اسلوبی سے کرو“۔
ہمیں یہ بات یاد رکھنی
چاہیے کہ اگر ہماری کوتاہوں سے ہمارے علمی اداروں کا معیارِ
تعلیم پست ہوا اور ہمارے بچوں نے غیر مسلموں کے تعلیمی
اداروں کا رخ کیا اور اس کے نتیجہ میں وہ اپنے دین سے
منحرف ہوئے اور اپنے قومی اور وطنی جذبہ سے محروم ہوئے تو اس کا وبال
سب پر پڑے گا اور اس کا جواب ہمیں کل اللہ کے سامنے دینا ہوگا اور اس
ذمہ داری کا احساس ہر فرد کو ہونا چاہیے خصوصاً تعلیمی
اداروں کے ذمہ دار حضرات اور وزارتِ تعلیم کے سرکردہ افراد کو۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو خصوصاً
تعلیمی میدان میں کام کرنے والوں اور اساتذہ و معلّمین
کو معلم کامل صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ پر
چلنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔ واللہ ولی التوفیق۔
$ $ $
--------------------------------------------------
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ4،
جلد:100 ، جمادی الاخری1437 ہجری مطابق اپریل 2016ء